شاخِ نہالِ غم
میں ایک برگِ خزاں کی مانند
کب سے شاخِ نہالِ غم پر
لرز رہا ہوں
مجھے ابھی تک ہے یاد وہ جاں فگار ساعت
کہ جب بہاروں کی آخری شام
مجھ سے کچھ یوں لپٹ کے روئی
کہ جیسے اب عمر بھر نہ دیکھے گا
ہم میں ایک دوسرے کو کوئی
وہ رات کتنی کڑی تھی
جب آندھیوں کے شب خوں سے
بوئے گل بھی لہو لہوتھی
سحر ہوئی جب تو پیڑ یوں خشک و زرد رُو تھے
کہ جیسے مقتل میں میرے بچھڑے ہوئے رفیقو ںکی
زخم خوردہ برہنہ لاشیں
گڑی ہوئی ہیں
میں جانتا تھا
کہ جب یہ بوجھل اشجار
جن کی کہنہ جڑیں زمیں کی عمیق گہرائیں میں برسوں سے جا گزیں تھیں
ہجومِ صرصر میں چند لمحے یہ ایستادہ نہ رہ سکے تو
میں ایک برگِ خزاں بھی
شاخِ نہالِ غم پر رہ سکوں گا
وہ ایک پل تھا کہ ایک رُت تھی
مگر مرے واسطے بہت تھی
مجھے خبر ہے کہ کل بہاروں کی اوّلیں صبح
پھر سے بے برگ و بار شاخوں کو
زندگی کی نئی قبائیں عطا کرے گی
مگرمرا دل دھڑک رہا ہے
مجھے، جسے آندھیوں کی یورش
خزاں کے طوفاں نہ چھُو سکے تھے
کہیں نسیمِ بہار۔۔۔شاخِ نہالِ غم سے
جُدا نہ کر دے
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)
No Response to "شاخِ نہالِ غم"
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔