دل بہلتا ہے کہاں انجم و مہتاب سے بھی


غزل

دل بہلتا ہے کہاں انجم و مہتاب سے بھی
اب تو ہم لوگ گئے، دیدئہ بے خواب سے بھی

رو پڑا ہوں تو کوئی بات ہی ایسی ہو گی
میں کہ واقف تھا ترے ہجر کے آداب سے بھی

کچھ تو اس آنکھ کا شیوہ ہے خفا ہو جانا
اور کچھ بھول ہوئی ہے دلِ بےتاب سے بھی

اے سمندر کے ہَوا تیرا کرم بھی معلوم
پیاس ساحل کی تو بجھتی نہیں سیلاب سے بھی

کچھ تو اُس حسن کو جانے ہے زمانہ سارا
اور کچھ بات چلی ہے مرے احباب سے بھی

دل کبھی غم کے سمندر کا شناور تھا فراز
اب تو خوف آتا ہے اک موجہءپایاب سے بھی
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)

2 Response to "دل بہلتا ہے کہاں انجم و مہتاب سے بھی"

محمد محمود مغل said... Best Blogger Tips[کمنٹ کا جواب دیں]Best Blogger Templates

boبہت خوب پیارے صاحب ماشا اللہ ۔ میرا بلاگ ناطقہ اور ناطق ہے ۔۔ کبھی فرصت ہو تو زحمت کیجے گا۔ والسلام

Muhammad Bilal Azam said... Best Blogger Tips[کمنٹ کا جواب دیں]Best Blogger Templates

بہت بہت شکریہ مغزل بھائی،
جی جی میں تو ابھی آپ کے بلاگ پہ تشریف آور ہو رہا ہوں۔
آپ بھی یہاں آتے رہیے گا اور اپنے قیمتی مشوروں سے ہمیں نوازتے رہیے گا۔

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


شئیر کیجیے

Ads 468x60px