روگ ایسے بھی غمِ یار سے لگ جاتے ہیں
در سے اُٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں
عشق آغاز میں ہلکی سی خلش رکھتا ہے
بعد میں سینکڑوں آزار سے لگ جاتے ہیں
پہلے پہلے ہوس اک آدھ دکاں کھولتی ہے
پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں
بے بسی بھی کبھی قربت کا سبب بنتی ہے
رو نہ پائیں تو گلے یار سے(1؎ )لگ جاتے ہیں
کترنیں غم کی جو گلیوں میں اڑی پھرتی ہیں
گھر میں لے آؤ تو انبار سے لگ جاتے ہیں
داغ دامن کے ہوں، دل کے ہوں کہ چہرے کے فرازؔ
کچھ نشاں عمر کی رفتار سے لگ جاتے ہیں
1؎ ضرورتِ اظہار
(احمد فراز)
(اے عشق جنوں پیشہ، ص47)
3 Response to "روگ ایسے بھی غمِ یار سے لگ جاتے ہیں "
برادر آپ کی اس پوسٹ کے حوالے سے ایک مضمون
http://farooqdarwaish.com/blog/?p=814
http://www.farooqdarwaish.com/blog/?p=814
سبحان اللہ!
غزل کا اصل مزہ آ گیا ہے تقطیع کے ساتھ۔
میرے لئے تو دہری خوشی کی بات ہے آپ کو یہ غزل پسند آئی۔
اور آپ کے بلاگ کی زینت بنی۔
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔