نہ حریفِ جاں نہ شریکِ غم شبِ انتظار کوئی تو ہو


غزل

نہ حریفِ جاں نہ شریکِ غم شبِ انتظار کوئی تو ہو
کسے بزمِ شوق میں لائیں ہم دلِ بے قرار کوئی تو ہو

کسے زندگی ہے عزیز اب کسے آرزوئے شبِ طرب
مگر اے نگارِ وفا طلب ترا اعتبار کوئی تو ہو

کہیں تارِ دامنِ گل ملے تو یہ مان لیں کہ چمن کھلے
کہ نشان فصلِ بہار کا سرِ شاخسار کوئی تو ہو

یہ اداس اداس سے بام و در، یہ اجاڑ اجاڑ سی رہگزر
چلو ہم نہیں نہ سہی مگر سرِ کوئے یار کوئی تو ہو

یہ سکونِ جاںکی گھڑی ڈھلے تو چراغِ دل ہی نہ بجھ چلے
وہ بلا سے ہو غمِ عشق یا غمِ روزگار کوئی تو ہو

سرِ مقتلِ شب آرزو، رہے کچھ تو عشق کی آبرو
جو نہیں عدو تو فراز تو کہ نصیب دار کوئی تو ہو
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)

جُز ترے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے


غزل

جُز ترے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے
تُو کہاں ہے مگر دوست پرانے میرے

تُو بھی خوشبو ہے مگر میرا تجسس بے کار
برگِ آوارہ کی مانند ٹھکانے میرے

شمع کی لَو تھی کہ وہ تُو تھا مگر ہجر کی رات
دیر تک روتا رہا کوئی سرہانے میرے

خلق کی بے خبری ہے کہ مری رسوائی
لوگ مجھ کو ہی سناتے ہیں فسانے میرے

لُٹ کے بھی خوش ہوں کہ اشکوں سے بھرا ہے دامن
دیکھ غارت گرِ دل یہ بھی خزانے میرے

آج اک اور برس بیت گیا اس کے بغیر
جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے

----ق----

کاش تُو بھی مری آواز کہیں سُنتا ہو
پھر پکارا ہے تجھے دل کی صدا نے میرے


کاش تو بھی کبھی آ جائے مسیحائی کو
لوگ آتے ہیں بہت دل کو دُکھانے میرے

کاش اوروں کی طرح میں بھی کبھی کہہ سکتا
بات سُن لی ہے مری، آج خدا نے میرے

تُو ہے کس حال میں اے زود فراموش مرے
مجھ کو تو چھین لیا عہدِ وفا نے میرے

چارہ گر یوں تو بہت ہیں مگر اے جانِ فراز
جز ترے اور کوئی زخم نہ جانے میرے
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)


معبود


معبود

بہت حسین ہی تیری عقیدتوں کے گلاب
حسین تر ہے مگر ہر گلِ خیال ترا
ہم ایک درد کے رشتے میں منسلک دونوں
تجھے عزیز مرا فن، مجھے جمال ترا

مگر تجھے نہیں معلوم قربتوں کے الم
ترے نگاہ مجھے فاصلوں سے چاہتی ہے
تجھے خبر نہیں شاید کہ خلوتوں میں مری
لہو اگلتی ہوئی زندگی کراہتی ہے

تجھے خبر نہیں شاید کہ ہم وہاں ہیں جہاں
یہ فن نہیں اذیت ہے زندگی بھر کی
یہاں گلوئے جنوں پر کمند پڑتی ہے
یہاں قلم کی زباں پر ہے نوک خنجر کی

ہم اس قبیلہءوحشی کہ دیوتا ہیں کہ جو
پجاریوں کی عقیدت پہ پھول جاتے ہیں
اور ایک رات کے معبود صبح ہوتے ہی
وفا پرست صلیبوں پہ جھول جاتے ہیں
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)

قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے


غزل

قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے

ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے

یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لئے
اب یہی ترکِ تعلق کے بہانے مانگے

اپنا یہ حال کہ جی ہار چکے لٹ بھی چکے
اور محبت وہی انداز پرانے مانگے

زندگی ہم ترے داغوں سے رہے شرمندہ
اور تُو ہے کہ سدا آئینہ خانے مانگے

دل کسی حال پہ قانع ہی نہیں جانِ فراز
مِل گئے تم بھی تو کیا اور نہ جانے مانگے
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)

مشورہ

مشورہ

ایک مشاعرے کے اختتام پر جب ایک نامر شاعر کو طے شدہ معاوضے سے کم رقم دی گئی تو وہ منتظمین پر پھٹ پڑے۔
'' میں اس رسید پر دستخط نہیں کر سکتا۔"
مجاز بھی وہیں موجود تھے۔ وہ نہایت معصومیت سے منتظم سے بولے
"اگر یہ دستخط نہیں کر سکتے تو ان سے انگوٹھا ہی لگوا لو۔"

فنکاروں کے نام


فنکاروں کے نام

تم نے دھرتی کے ماتھے پہ افشاں چُنی
خود اندھیری فضاﺅں میں پلتے رہے
تم نے دنیا کے خوابوں کی جنت بُنی
خود فلاکت کے دوزخ میں جلتے رہے
تم نے انسان کے دل کی دھڑکن سُنی
اور خود عمر بھر خوں اُگلتے رہے


جنگ کی آگ دنیا میں جب بھی جلی
امن کی لوریاں تم سناتے رہے
جب بھی تخریب کی تُند آندھی چلی
روشنی کے نشاں تم دکھاتے رہے
تم سے انساں کی تہذیب پھولی پھلی
تم مگر ظلم کے تیر کھاتے رہے


تم نے شہکار خونِ جگر سے سجائے
اور اس کے عوض ہاتھ کٹوا دیئے
تم نے دنیا کو امرت کے چشمے دکھائے
اور خود زہرِ قاتل کے پیالے پیے
تم مرے تو زمانے کے ہاتھوں سے وائے
تم جیے تو زمانے کی خاطر جیے


تم پیمبر نہ تھے عرش کے مدعی
تم نے دنیا سے دنیا کی باتیں کہیں
تم نے ذروں کو تاروں کی تنویر دی
تم سے گو اپنی آنکھیں بھی چھینی گئیں
تم نے دُکھتے دلوں کی مسیحائی کی
اور زمانے سے تم کو صلیبیں ملیں

کاخ و دربار سے کوچہءدار تک
کل جو تھے آج بھی ہیں وہی سلسلے
جیتے جی تو نہ پائی چمن کی مہک
موت کے بعد پھولوں کے مرقد ملے
اے مسیحاﺅ! یہ خود کشی کب تلک
ہیں زمیں سے فلک تک بڑے فاصلے
(احمد فراز)
(دردِآشوب)


دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو


غزل

دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو

میں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے
میرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو

میں اس کے ہاتھ نہ آؤں اور وہ میرا ہو کے رہے
میں گر پڑوں تومیری پستیوں کا ساتھی ہو

وہ میرے نام کی نسبت سے معتبر ٹھہرے
گلی گلی میری رسوائیوں کا ساتھی ہو

کرے کلام مجھ سے تو میرے لہجے میں
میں چپ رہوں تو میرے تیوروں کا ساتھی ہو

میں اپنے آپ کو دیکھوں اور وہ مجھ کو دیکھے جائے
وہ میرے نفس کی گمراہیوں کا ساتھی ہو

وہ خواب دیکھے تو دیکھے میرے حوالے سے
میرے خیال کے سب منظروں کا ساتھی ہو
(افتخار عارف)

بائیسکل



بائیسکل

اکبر الہٰ آبادی کے ایک عزیز بائیسکل سے گر پڑے اور ہفتہ بھر بستر پر رہے۔ جب تندرست ہو کر اکبر الہٰ آبادی سے ملنے گئے تو وہ کہنے لگے۔
بُرا ہوا! اب مجھے کوئی کچھ کہے لیکن مجھے عہدِ حاضر کی اچھی سے اچھی ایجاد میں بھی نقصان کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور نظر آتا ہے، خواہ موٹر ہو یا ہوائی جہاز۔۔۔ اب بائیسکل کو ہی دیکھ لو، مرض ”بائی“ سے شروع ہوتا ہے، پھر ”سک“ ہوتا ہے، پھر ”ال“ بنتا ہے، یوں بائیسکل بنتا ہے۔

قاتل سپاہی


قاتل سپاہی

دوپہر کے ساڑھے بارہ بجے ہیں، جون کا مہینہ ہے، سمن آباد کی گلیوں میں ایک ڈاکیا پسینے میں شرابور بوکھلایا بوکھلایا پھر رہا ہے۔محلے کے لوگ بڑی حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔اصل میں آج اس کی ڈیوٹی کا پہلا دن ہے۔ وہ کچھ دیر اِدھر اُدھر دیکھتا رہا پھر ایک پرچون والے کی دکان 
کے پاس سائیکل کھڑی کر کے دکاندار کی طرف بڑھتا ہے۔
قاتل سپاہی کا گھر کون سا ہے؟
 اس نے آہستہ سے پوچھا اور'' دکاندار کے پیروں تلے زمین نکل گئی، اس کی آنکھیں خوف سے ابل پڑیں۔ ”قق.....قاتل.....سس.....سپاہی مجھے کیا پتا.....“ اس نے جلدی سے دکان کا شٹر گرا دیا۔ڈاکیا پھر پریشان ہو گیا۔ اس نے بڑی کوشش کی کہ کسی طریقے سے قاتل سپاہی کا پتا چل جائے لیکن جو کوئی بھی اس کی بات سنتا چپکے سےکھسک جاتا، ڈاکیا نیا تھا، نہ جان نہ پہچان اور اوپر سے”قاتل سپاہی“ کے نام کی رجسٹری.....آخر وہ کرے تو کیا کرے.....کہاں سے ڈھونڈے قاتل سپاہی کو.....اس نے پھر سے نام پڑھا۔ نام اگر چہ انگلش میں لکھا ہوا تھا لیکن آخر کار وہ بھی مڈل پاس تھا، تھوڑی بہت انگلش تو سمجھ سکتا تھا۔ بڑے واضح الفاظ میں”قاتل سپاہی، غا لب اسٹریٹ، سمن آ باد“ لکھا ہوا تھا۔ دو گھنٹے تک گلیوں کی خاک چھاننے کے بعد وہ ہانپنے لگااور تھک ہار کر ایک مکان کے باہر بنے تھڑے پر بیٹھ کر لمبی لمبی سانسیں لینے لگا۔ڈیوٹی کے پہلے ہی روز اسے ناکامی کا سامنا ہورہا تھا، اور اب وہ اپنے پوسٹ ماسٹر کو کیا منہ دکھائے گا۔ اس کا حلق خشک ہو گیا۔ اسے پانی کی طلب محسوس ہوئی۔ وہ بے اختیار اٹھا اور گھر کے دروازے پر لگی بیل پر انگلی رکھ دی۔اچانک اسے ایک زور کا جھٹکا لگا۔ جھٹکے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ بیل میں کرنٹ تھا، بلکہ بیل کے نیچے لگی نیم پلیٹ پر انگلش میں
  QATIL SHIPAHI قاتل سپاہی
 لکھا ہواتھا۔خوشی کی ایک لہر اس کے اندر دوڑ گئی۔ اتنی دیر میں دروازہ کھلا اور ایک نوجوان باہر نکلا۔ ڈاکئے نے جلدی سے رجسٹری اس کے سامنے کر دی
کیا یہ آپ ہی کا نام ہے؟ 
نوجوان نے نام پڑھا اور کہا ”نہیں.....یہ میرے دادا ہیں “۔

پرکھنا مت ،پرکھنے سے کوئی اپنا نہیں رہتا



غزل

پرکھنا مت ،پرکھنے سے کوئی اپنا نہیں رہتا
کسی بھی آئینے میں دیر تک چہرہ نہیں رہتا 

بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلے رکھنا
جہاں دریا سمندر سے ملا، دریا نہیں رہتا

ہزاروں شعر میرے سو گئے کاغذ کی قبروں میں
عجب ماں ہوں کوئی بچہ میرا زندہ نہیں رہتا

تمہارا شہر تو بالکل نئے انداز والا ہے
ہمارے شہر میں بھی اب کوئی ہم سا نہیں رہتا

محبت ایک خوشبو ہے ہمیشہ ساتھ چلتی ہے 
کوئی انسان تنہائی میں بھی تنہا نہیں رہتا 

کوئی بادل ہرے موسم کا پھر اعلان کرتا ہے
خزاں کے باغ میں جب ایک بھی پتہ نہیں رہتا
(بشیر بدر)

اے شاعرِ مشرق


بہت دکھ اور کرب کے ساتھ اجمل نذیر کی یہ نظم آپ سب کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں کہ شاعرِ مشرق کے افکار کے ساتھ ہم نے کیا حال کیا۔ مگر ساتھ ہی یہ عزم بھی ہے کہ ہم آئندہ کسی بھی لکھنے والے کو اس طرح کی کوئی بھی تحریر لکھنے کا موقع نہیں دیں گے۔ٍ


اے شاعرِ مشرق

اے شاعرِ مشرق ترے افکار و تخیل
بہتے ہوئے دھارے تھے کسی موجِ رواں کے
تا دیر اثر خیزی کا ساماں بھی وہی تھے
جو تیر تھے کچھ فہم و فراست کی کماں کے

ڈھونڈے نہ کبھی حرف و صداقت کے معنی
اپنائے ہیں غیروں کے سے انداز نہ سمجھے
تقلید کے دھوکے میں مٹا ڈالی ہے تہذیب
ملت کے تقاضوں کے حسیں راز نہ سمجھے

ہم منزلِ مقصود پہ پہنچے نہ لگن سے
نعروں سے لیا کام ہنر تک نہیں پہنچے
تکمیلِ تمنا کے لئے شوق بڑا تھا
پر قوتِ بازو کے اثر تک نہیں پہنچے

مجرم ہیں گہر ہم نے گراں مایہ بہ حکمت
بے نام مسافت کے جھمیلوں میں گنوائے
برسوں سے روش اپنی غلامانہ رہی ہے
ایسے میں بھلا اپنی خودی کون جگائے

اے شاعرِ مشرق ترے احساس کی دولت
اے کاش کہ سینوں میں اتر جائے ہمارے
مایوسی کا عالم ہو کبھی ختم خدارا
امیدوں کی کشتی بھی لگے آ کے کنارے

ہو اپنا یقیں تیری تمنا کے مطابق
پھر کون بھلا غیر سے مانگے گا سہارے
یک جہتی سے منزل کی طرف ایسے رواں ہوں
گردوں سے خدا اپنے ملائک بھی اتارے
(اجمل نذیر)

اقبال ؒ! ترے دیس کا کیا حال سناﺅں


اقبال ؒ! ترے دیس کا کیا حال سناﺅں

دہقان تو مر کھپ گیا اب کس کو جگاﺅں
ملتا ہے کہاں خوشہءگندم کہ جلاﺅں
شاہین کا ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا
کنجشک فرومایہ کو اب کس سے لڑاﺅں
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

ہر داڑھی میں تنکا ہے، ہر اک آنکھ میں شہتیر
مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلوار سے خالی ہیں نیامیں
اب ذوقِ یقیں سے کٹتی نہیں کوئی زنجیر
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

شاہیں کا جہاں آج کرگس کا جہاں ہے
ملتی ہوئی مُلّا سے مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور
شاہیں میں مگر طاقتِ پرواز کہاں ہے
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

مر مر کی سلوں سے کوئی بیزار نہیں ہے
رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
کہنے کو ہر اک شخص مسلمان ہے، لیکن
دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے
اس بندہ مومن کو میں اب لاﺅں کہاں سے
!وہ سجدہ زمیں جس سے لرز جاتی تھی یارو
اک بار تھا ہم چھٹ گئے اس بارِ گراں سے
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے ذاتوں کے نسب کے
اگتے ہیں تہِ سایہ گل خار غضب کے
یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی
اس کے تنِ خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے
جمہور سے سلطانی جمہور ڈرے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے یہاں پر جو خودی کا
مر مر کے جئے ہے کبھی جی، جی کے مرے ہے
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

دیکھو تو ذرا محلوں کے پردوں کو اٹھا کر
شمشیر و سناں رکھی ہے طاقوں پہ سجا کر
آتے ہیں نظر مسند شاہی پہ رنگیلے
تقدیرِ امم سو گئی طاﺅس پہ آ کر
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

مکاری و عیاری و غداری و ہیجان
اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو!
اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

کردار کا گفتار کا اعمال کا مومن
قائل نہیں ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن کوئی بنگال کا مومن
ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں
(امیر الاسلام ہاشمی)

اے کاش کہ پاکستان ، اقبالؒ کا پاکستان بن جائے، خوشحالی کا 
ایک نیا دور شروع ہو جائے،اور پھر کوئی بھی ایسی نظمیں نہ لکھے۔

چراغِ مُردہ کو اِک بار اور اُکساؤں


غزل

چراغِ مردہ کو اک بار اور اکساؤں
دیا بجھا تو سحر کا فریب کیوں کھاؤں

خدا کے کام جو آئے، خدا بنائے گئے
مَیں سوچتا ہوں کہ انسان ہی کے کام آؤں

مَیں رنگ و نغمہ و رقصِ حیات ہوں یعنی
ضمیرِ دہر ہوں، شاہوں کے ہاتھ کیا آؤں

رچی ہوئی ہے رفاقت میرے رگ و پے میں
کچھ اس طرح کہ اکیلا چلوں تو گھبراؤں

ستارے ٹوٹ کے کلیوں کے روپ میں چٹکیں
ذرا زمیں کے پندار کو جو اکساؤں

کِسی کی زلف بھی منّت پذیرِ شانہ سہی
مگر مَیں گیسوئے گیتی تو پہلے سلجھاؤں

کئی برس سے مجھے مل رہا ہے درسِ خودی
یہی کہ تیرگیوں میں ہوَا سے ٹکراؤں

مَیں اب سے دُور فرشتوں کے گیت لکھتا رہا
یہ آرزو ہے کہ اب آدمی کو اپناؤں
(احمد ندیم قاسمی)

اب بھلا چھوڑ کے گھر کیا کرتے


غزل

اب بھلا چھوڑ کے گھر کیا کرتے
شام کے وقت سفر کیا کرتے

تیری مصروفیتیں جانتے ہیں
اپنے آنے کی خبر کیا کرتے

جب ستارے ہی نہیں مل پائے
لے کے ہم شمس و قمر کیا کرتے

وہ مسافر ہی کھلی دھوپ کا تھا
سائے پھیلا کے شجر کیا کرتے

خاک ہی اوّل و آخر ٹھہری
کر کے ذرّے کو گہر کیا کرتے

رائے پہلے سے بنا لی تو نے
دل میں اب ہم تیرے گھر کیا کرتے

عشق نے سارے سلیقے بخشے
حسن سے کسبِ ہنر کیا کرتے
(پروین شاکر)

کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا تیرا


غزل

کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا تیرا
کچھ نہ کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا تیرا

ہم بھی وہیں موجود تھے، ہم سے بھی سب پوچھا کیے
ہم ہنس دیئے، ہم چُپ رہے، منظور تھا پردا تیرا

اس شہر میں کِس سے مِلیں، ہم سے تو چُھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے، ہر شخص دیوانہ تیرا

کُوچے کو تیرے چھوڑ کے جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل تیرے، پربت تیرے، بستی تیری، صحرا تیرا

تُو باوفا، تُو مہرباں، ہم اور تجھ سے بدگماں؟
ہم نے تو پوچھا تھا ذرا، یہ وصف کیوں ٹھہرا تیرا

بے شک اسی کا دوش ہے، کہتا نہیں خاموش ہے
تو آپ کر ایسی دوا، بیمار ہو اچھا تیرا

ہم اور رسمِ بندگی؟ آشفتگی؟ اُفتادگی؟
احسان ہے کیا کیا تیرا، اے حسنِ بے پروا تیرا

دو اشک جانے کِس لیے، پلکوں پہ آ کر ٹِک گئے
الطاف کی بارش تیری اکرام کا دریا تیرا


اے بے دریغ و بے اَماں، ہم نے کبھی کی ہے فغاں؟
ہم کو تِری وحشت سہی، ہم کو سہی سودا تیرا

ہم پر یہ سختی کی نظر، ہم ہیں فقیرِ رہگزر
رستہ کبھی روکا تیرا دامن کبھی تھاما تیرا 

ہاں ہاں تیری صورت حسیں، لیکن تُو اتنا بھی نہیں
اس شخص کے اشعار سے شہر ہوا کیا کیا تیرا

بے درد، سننی ہو تو چل، کہتا ہے کیا اچھی غزل
عاشق تیرا، رسوا تیرا، شاعر تیرا، اِنشا تیرا
(ابن انشاء)

ا ب عمر کی نقدی ختم ہوئی


ا ب عمر کی نقدی ختم ہوئی 


ا ب عمر کی نقدی ختم ہوئی 

ا ب ہم کو ا دھار کی حاجت ہے
ہے کوئی جو ساہو کار بنے
ہے کوئی جو دیون ہار بنے
کچھ سال ،مہینے، دن لوگو
پر سود بیاج کے بن لوگو
ہاں ا پنی جا ں کے خزانے سے 
ہا ں عمر کے توشہ خانے سے
کیا کوئی بھی ساہو کار نہیں
کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں
جب نام ا دھر کا آیا کیوں 
سب نے سر کو جھکایا ہے
کچھ کام ہمیں نپٹانے ہیں
جنہیں جاننے والے جانے ہیں
کچھ پیار ولار کے دھندے ہیں
کچھ جگ کے دوسرے پھندے ہیں

ہم مانگتے نہیں ہزا ر برس
دس پانچ برس دو چار برس
ہاں ،سود بیا ج بھی دے لیں گے
ہا ں ا ور خرا ج بھی دے لیں گے
آسان بنے، دشوار بنے
پر کوئی تو دیون ہار بنے
تم کون ہو تمہارا نام کیا ہے
کچھ ہم سے تم کو کام کیا ہے
کیوں ا س مجمع میں آئی ہو
کچھ مانگتی ہو ؟ کچھ لاتی ہو
یہ کاروبار کی باتیں ہیں
یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں
ہم بیٹھے ہیں کشکول لیے
سب عمر کی نقدی ختم کیے
گر شعر کے رشتے آئی ہو
تب سمجھو جلد جدائی ہو
ا ب گیت گیا سنگیت گیا
ہا ں شعر کا موسم بیت گیا
ا ب پت جھڑ آئی پات گریں
کچھ صبح گریں، کچھ را ت گریں
یہ ا پنے یار پرانے ہیں
اک عمر سے ہم کو جانے ہیں
ا ن سب کے پاس ہے مال بہت
ہا ں عمر کے ماہ و سال بہت
ا ن سب کو ہم نے بلایا ہے
ا ور جھولی کو پھیلایا ہے
تم جاو ¿ ا ن سے بات کریں
ہم تم سے نا ملاقات کریں
کیا پانچ برس ؟
کیا عمر ا پنی کے پانچ برس ؟
تم جا ن کی تھیلی لائی ہو ؟
کیا پاگل ہو ؟ سو دائی ہو ؟
جب عمر کا آ خر آتا ہے
ہر دن صدیاں بن جاتا ہے
جینے کی ہوس ہی زالی ہے
ہے کون جو ا س سے خالی ہے
کیا موت سے پہلے مرنا

تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے
پھر تم ہو ہماری کون بھلا
ہا ں تم سے ہمارا رشتہ کیا ہے
کیا سود بیاج کا لالچ ہے ؟
کسی ا ور خرا ج کا لالچ ہے ؟
تم سوہنی ہو ، من موہنی ہو ؛
تم جا کر پوری عمر جیو
یہ پانچ برس، یہ چار برس
چھن جائیں تو لگیں ہزار برس
سب دوست گئے سب یار گئے
تھے جتنے ساہو کار ، گئے
بس ایک یہ ناری بیٹھی ہے
یہ کون ہے ؟ کیا ہے ؟ کیسی ہے ؟
ہا ں عمر ہمیں درکار بھی ہے ؟
ہا ں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے
جب مانگیں جیون کی گھڑیاں 
گستاخ آنکھوں کت جا لڑیاں
ہم قرض تمہیں لوٹا دیں گے
کچھ ا ور بھی گھڑیاں لا دیں گے
جو ساعت و ماہ و سال نہیں
وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں
لو ا پنے جی میں ا تار لیا
لو ہم نے تم کو ادھار لیا
(ابن انشاء)

چل انشاءاپنے گاؤں میں




چل انشاءاپنے گاؤں میں

یہاں اُلجھے اُلجھے روپ بہت
پر اصلی کم، بہروپ بہت
اس پیڑ کے نیچے کیا رکنا
جہاں سایہ کم ہو، دھوپ بہت
چل انشاءاپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سکھ کی چھاؤں میں

کیوں تیری آنکھ سوالی ہے؟
یہاں ہر اِک بات نرالی ہے
اِس دیس بسیرا مت کرنا
یہاں مفلس ہونا گالی ہے
چل انشاءاپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سکھ کی چھاؤں میں

جہاں سچے رشتے یاریوں کے
جہاں گھونگھٹ زیور ناریوں کے
جہاں جھرنے کومل سکھ والے
جہاں ساز بجیں بِن تاروں کے
چل انشاءاپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سکھ کی چھاؤں میں
(ابنِ انشاء)



علامہ اقبال اور عشق رسولﷺ از ڈاکٹر طاہر القادری

علامہ اقبال اور عشق رسولﷺ از ڈاکٹر طاہر القادری

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدﷺ سے اجالا کر دے
صوفیا کی تعلیم اور ان کا فکر عشق رسالت مآب صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کس قدر لبریز ہے کسی بھی اہل علم پر مخفی نہیں۔ عشقِ مصطفےٰ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سے لبریز اسی فکر کی نمائندگی کرتے ہوئے علامہ اقبال فرماتے ہیں
ہر کہ عشقِ مصطفےٰ سامانِ اوست 
بحر و بردر گوشہ دامانِ اوست
 ایک اور مقام پر بارگاہ رسالت مآب صل اللہ علیہ و آلہ وسلم میں اس طرح عرض پرداز ہیں کہ عشق و مستی کے ہزاروں قلزم ایک شعر میں محصور نظر آتے ہیں۔
ذکر و فکر و علم و عرفانم توئی
کشتی و دریا و طوفانم توئی
اسی مضمون کو اردو میں علامہ اس طرح بیان فرماتے ہیں۔
نگاہ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآن وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طہٰ
نہ صرف یہ کہ علامہ اقبال نے امّتِ محمدی صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ذاتِ محمدی سے والہانہ پیغام دیا بلکہ اسی عشقِ رسالت اور نسبت محمدی صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ملتِ اسلامیہ کی بقا و دوام کا راز بھی قرار دیا اور یہی وہ انقلاب انگیز قوت تھی جس سے سامراجی و طاغوتی طاقتیں خائف تھیں۔زوالِ اسلام کے اس دور میں جب اقبال ملتِ اسلامیہ کے عروقِ مردہ میں عشقِ مصطفےٰ صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیغام کے ذریعے نئی روح پھونک کر اسے تباہی و ہلاکت سے بچانے کی فکر میںتھے۔ اسلام دشمن استعماری طاقتیں منظم ہو کر مسلمانوں کے دلوں میں اسی عشقِ رسالت کی شمع بجھا دینے کا سوچ رہی تھیں۔ انہیںمعلوم تھا کہ اگر مسلمانوں کے دل رسالت مآب صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عشق و محبت سے خالی ہو گئے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی نہ تو انہیں اپنی کھوئی ہوئی عظمت واپس دلا سکتی ہے اور نہ ہی اصلاح و تجدید کی ہزاروں تحریکیں انہیں اپنی منزل مراد تک پہنچا سکتی ہیں۔ یہ محض یا ایک خیال خام نہیں بلکہ ایک روشن حقیقت ہے۔ مغربی استعمار کی اسی سازش کی طرف علامہ اقبال نے اشارہ فرماتے ہوئے کہا تھا۔
یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں
کبھی روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
 اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
چناچہ اس مقصد کے تحت اہل مغرب نے یہ فکری میدان اسلامی تحقیق کے نام پر بعض متعصب یہودی اور عیسائی مستشرقین کے سپرد کر دیا۔ جنہوں نے اسلام کی تعلیمات اور بانی اسلام صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شخصیت اور سیرت پر اس انداز سے تحقیق کر کے لا تعداد کتب تصنیف کیں کہ اگر ایک خالی الذہن سادہ مسلمان نہایت نیک نیتی کے ساتھ بھی ان تصانیف کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کا ذہن رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کے بارے میںطرح طرح کے شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتا ہے اور ان کتب کے باقاعدہ مطالعہ سے جو ذہن تشکیل پاتا ہے اسے عشق رسالت کے تصور سے دور کا واسطہ باقی نہیں رہتا۔ ان مستشرقین نے جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کے ذہنوں کو مسموم کرنے کا محاذ سنبھال لیا جس سے وہ اپنے مطلوبہ نتائج کافی حد تک حاصل کر رہے ہیں۔ مغرب زدہ سیکولر ذہن جو فکری تشتت اور نظریاتی تشکیک میں مبتلا ہو کر خود کو روشن خیال مسلمان تصور کر رہا تھا۔ مستشرقین کے زہریلے پراپیگنڈے کے باعث عشقِ رسول صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دولت سے عاری ہو گیا اور مذہبی ذہن جو مستشرقین کے پراپیگنڈے کے اثر سے کسی نہ کسی طور بچ گیا تھا جدید لٹریچر کے نتیجے میں اسلام اور بانی اسلام صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم سے وابستہ تو رہا لیکن عشقِ رسول ﷺکے عقیدے کو غیر اہم تصور کرنے لگا۔ اس طرح دونوں طبقات اس دولتِ لازوال سے تہی دامن ہو کر ایمانی حلاوت اور روحانی کیفیات سے محروم ہو گئے۔ جدید تصورات کی گرفت اس قدر مضبوط اور کامل نہ تھی کہ مسلمانوں کی اسلامیت ظاہر و باطن کے اعتبار سے محفوظ رہتی۔ یوں قومی و ملی زندگی تباہی و ہلاکت کا شکار ہو گئی۔ اس دور میں احیائے اسلام اور ملّت کی نشاةثانیہ کی جس قدر علمی و فکری تحریکیں منصّہ شہود پر آئی ہیں، ان سب کی تعلیمات سے جو تصور مسلمانوں کی نوجواں نسل کے ذہنوں میں پیدا ہو رہا ہے، یہی ہے کہ اسلام کو بحیثیت نظامِ حیات قبول کر لینا اور حضور ﷺ کی سیرت و تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہی کمالِ ایمان اور محبتِ رسول ﷺہے۔ اس اتباع کے علاوہ جناب رسالت مآبﷺ کی ذاتِ ستودہ صفات سے خاص قسم کی قلبی اور جزباتی لگاو ¿ جسے والہانہ عشق و محبت سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کی علامت و احوال سے اہلِ دل بخوبی واقف ہیں مقصودِ ایمان ہے۔اس نام نہاد روشن خیالی سے ہماری حیاتِ ملی پر جو مضر اثرات مرتب ہوئے محتاج بیان نہیں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عشقِ رسول ﷺ کے اصل تصور کو قرآن و حدیث اور سنت صحابہ کے آئینے میں اس طرح اجاگر کیا جائے کہ آج کی نوجواں نسل جو تلاشِ حقیقت میں سرگرداں ہے، اس آفاقی حقیقت سے باخبر ہو کر پھر سے اپنے آقا و مولیٰ ﷺ کے ساتھ عشق و محبت کا وہ تعلق استوار کر لے کہ اس کی نظروں کو دانش فرنگ کے جلوے کبھی خیرہ نہ کر سکیں۔بقول اقبال۔
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
اور انہیں دین حق کی اس کامل تعبیر کی صیحح معرفت نصیب ہو جسے اقبال نے اس شعری قالب میں ڈھال دیا ہے۔
بمصطفےٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگربہ او نر سیدی تمام بو لہبی ست
(از قلم: ڈاکٹر محمد طاہر القادری)


آخری خط


آخری خط

وہ وقت مری جان بہت دُور نہیں ہے
جب درد سے رک جائیں گی سب زیست کی راہیں
اور حد سے گزر جائے گا اندوہِ نہانی
تھک جائیں گی ترسی ہوئی ناکام نگاہیں
چھن جائیں گے مجھ سے مرے آنسو مری آہیں
چھن جائے گی مجھ سے مری بے کار جوانی

شاید مری الفت کو بہت یاد کرو گی
اپنے دلِ معصوم کو ناشاد کرو گی
آﺅ گی مری گور پہ تم اشک بہانے
نوخیز بہاروں کے حسیں پھول چڑھانے

شاید مری تربت کو بھی ٹھکرا کے چلو گی
شاید مری بے سود وفاﺅں پہ ہنسو گی
اس وضعِ کرم کا بھی تمہیں پاس نہ ہو گا
لیکن دلِ ناکام کو احساس نہ ہو گا

القصّہ مآلِ غمِ الفت پہ ہنسو تم
یا اشک بہاتی رہو، فریاد کرو تم
ماضی پہ ندامت ہو تمہیں یا کہ مسرت
خاموش پڑا سوئے گا واماندئہ الفت
(فیض احمد فیض)
(نقشِ فریادی)

احمد فراز












































































































شئیر کیجیے

Ads 468x60px