(غزل(منسوخ
تم آزماﺅ ”ہاں“ کو زباں سے نکال کے
یہ صدقے ہو گی میری سوالِ وصال کے
جادو عجب نگاہِ خریدارِ دل میں تھا
بِکتا ہے ساتھ، بیچنے والا بھی مال کے
کم بخت کی اک نہیں، ہزاروں ہیں صورتیں
ہوتے ہیں سو جواب، سوالِ وصال کے
ہم موت مانگتے ہیں، وہ گھبرائے جاتے ہیں
سمجھے اُنہوں نے اور ہی معنی وصال، کے
اے ضبط! ہوشیار، مرا حرفِ مدعا
قابو میں آ نہ جائے سوالِ وصال کے
مارے ہیں آسماں نے مجھے تاک تاک کے
کیا بے خطا ہیں تیر کمانِ ہلال کے
اُن کی گلی میں اور کچھ اندھیر ہو نہ جائے
اے ضعف دیکھ مجھ کو گرانا سنبھال کے
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
“میں نے کہا ”بے دہنی اور یہ گالیاں؟
کہنے لگے بول ذرا منہ سنبھال کے
“کہتے ہیں ہنس کے”جائیے ، ہم سے نہ بولیے
قربان جاﺅں طرز بیانِ ملال کے
بگڑے حیا نہ شوخیِ رفتار سے کہیں
چلتے نہیں وہ اپنا دوپٹے سنبھال کے
تصویر میں نے مانگی تو ہنس کر دیا جواب
عاشق ہوئے ہو تم تو کسی بے مثال کے
چلتے ہوئے کسی کا جو آنچل سرک گیا
“بولی حیا ”حضور! دوپٹہ سنبھال کے
حسرت نہیں، کسی کی تمنا نہیں ہوں میں
مجھ کو نکالیے گا ذرا دیکھ بھال کے
کہتا ہے خضر دشتِ جنوں میں مجھے کہ ”چل
“آتا ہوں میں بھی پاﺅں سے کانٹے نکال کے
اقبال، لکھنو سے نہ دِلّی سے ہے غرض
ہم تو اسیر ہیں خمِ زلفِ کمال کے
(دسمبر 1895ءتا1896ء)
منشی محمد دین فوق نے کشمیری میگزین لاہور بابت اپریل1909ءمیں اس غزل کے بارے میں لکھا ہے
چند سال ہوئے لاہور میں ایک بزمِ مشاعرہ نہایت کامیابی اور کمال سے منعقد ہوا کرتی تھی۔۔۔۔۔ایک مشاعرے میں ہمارے نوجوان اقبال نے بھی،جب کہ بیس بائیس برس کا سِن تھا،
طُرح پر ایک غزل پڑھی اور جب اس شعر پر پہنچے
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
تو مرزا ارشد گورکانی مرحوم بے اختیار واہ واہ کہہ اٹھے اور بولے”میاں اقبال، اس عمر میں اور یہ شعر“ یہ پہلا موقع تھا کہ لاہور کے باذوق لوگوں کو اس نوجوان اور ہونہار
شاعر سے شناسائی ہوئی۔
No Response to "موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے"
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔