ٹوٹتے جاتے ہیں سب آئنہ خانے میرے


غزل
ٹوٹتے جاتے ہیں سب آئنہ خانے میرے
وقت کی زد میں ہیں یادوں کے خزانے میرے

زندہ رہنے کی ہو نیّت تو شکایت کیسی
میرے لب پر جو گِلے ہیں وہ بہانے میرے

رخشِ حالات کی باگیں تو مرے ہاتھ میں تھیں
صرف میں نے کبھی احکام نہ مانے میرے

میرے ہر درد کو اس نے اَبَدیّت دے دی
یعنی کیا کچھ نہ دیا مجھ کو خدا نے میرے

میری آنکھوں میں چراغاں سا ہے مستقبل کا
اور ماضی کا ہیولٰی ہے سَرہانے میرے

تُو نے احسان کیا تھا تو جتایا کیوں تھا
اس قدر بوجھ کے لائق نہیں شانے میرے

راستہ دیکھتے رہنے کی بھی لذّت ہے عجیب
زندگی کے سبھی لمحات سہانے میرے

جو بھی چہرہ نظر آیا ترا چہرہ نکلا
تو بصارت ہے مری، یار پرانے میرے

سوچتا ہوں مری مٹّی کہاں اڑتی ہوگی
اِک صدی بعد جب آئیں گے زمانے میرے

صرف اِک حسرتِ اظہار کے پر تو ہیں ندیم
میری غزلیں ہوں کہ نظمیں کہ فسانے میرے
(احمد ندیم قاسمی)

2 Response to "ٹوٹتے جاتے ہیں سب آئنہ خانے میرے"

محمد احمد said... Best Blogger Tips[کمنٹ کا جواب دیں]Best Blogger Templates

واہ واہ واہ!

اتنی خوبصورت غزل کہاں سے ملی آپ کو بھائی۔۔۔۔۔!

پڑھ کر سرشار ہو گیا ہوں۔

خوش رہیے آباد رہیے۔

Muhammad Bilal Azam said... Best Blogger Tips[کمنٹ کا جواب دیں]Best Blogger Templates

بہت بہت شکریہ محمد احمد بھائی پسندیدگی کا۔

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


شئیر کیجیے

Ads 468x60px