غزل
کچھ یاد گارِ شہرِ ستمگر ہی لے چلیں
آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں
یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر
سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں
رنجِ سفر کی کوئی نشانی تو پاس ہو
تھوڑی سی خاکِ کوچہءدلبر ہی لے چلیں
یہ کہہ کے چھیڑتی ہے ہمیں دل گرفتگی
گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں
اس شہرِ بے چراغ میں جائے گی تو کہاں
آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلیں
(ناصر کاظمی)
2 Response to "کچھ یاد گارِ شہرِ ستمگر ہی لے چلیں"
میں نے پہلی بار یہ غزل اپنے میٹرک کی اردو کی کتا ب میں پڑھی تھی اور مجھے تب سے پسند ہے۔
دعا جی بلاگ پہ تشریف لانے کا بہت بہت شکریہ۔
میں ابھی ابھی آپ ہی کا بلاگ دیکھ کے آ رہا ہوں۔
واقعی آپ نے بہت جلد بلاگنگ سیکھی ہے۔
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔