تنہائی
جب انسان کو اس دنیائے فانی میں پیدا کیا گیاتو وہ ہر چیز سے نا آشنا تھا۔ مگر آہستہ آہستہ انسان اس دنیا کے اسرار و رموز سے آگاہ ہوتا گیا۔ انسان نے اپنی بشری کمزوریوں کو بھی محسوس کیا۔ اسی وجہ سے انسان نے قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کی پہچان کی جا سکے اور ایک دوسرے پر انحصار کیا جا سکے۔
انسان فطری لحاظ سے جلوت کو خلوت پہ ترجیح دیتا آیا ہے۔وہ لوگوں سے ملنے جلنے اور تعلقات بڑھانے کو بہتر سمجھتا ہے، مگر ایک اکثریت ایسے لوگوں کی بھی ہے جو تنہائی پسند ہوتے ہیں۔لیکن یہ تنہائی ہی ہے جو انسان کو اللہ کے بھی قریب کر دیتی ہے اور شیطان کے بھی۔ انسان کے اصل انسانی پن کا اظہار تنہائی میں ہوتا ہے۔ تنہائی میں انسان کا باطن زیادہ کھل کر سامنے آتا ہے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے
شرمائے جس سے جلوت، خلوت میں وہ ادا ہو
تنہائی خوف کا جنم دیتی ہے اور خوف پر قابو پانے میں بھی مدد دیتی ہے۔ایک سروے کے مطابق دنیا میں تقریباََ 25% لوگ ایسے ہیں جو تنہائی سے خوف محسوس نہیں کرتے جبکہ 16.55% ایسے ہیں جو تنہائی سے خار کھاتے ہیں۔ ایشیا میں یہ تعداد بلترتیب 41.67% اور8.33%ہے جبکہ یورپ میں یہی تعداد 19.57% اور 17.39%ہے۔
ایسے لوگ جو تنہائی سے خوف کھاتے ہیں ان میں تنہائی سے ڈپریشن ، ٹینشن جیسی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ جس سے انسان معاشرے سے کٹ جاتا ہے، وہ خود کو زمانے کی نظروں میں حقیر سمجھنے لگتا ہے، جبکہ زمانہ نھی پھر ایسے شخص کو ایک بوجھ سمجھتا ہے۔
اردو شاعری میں بھی تنہائی پہ بہت لازوال اشعار تخلیق کیے جا چکے ہیں، مگراداس ناصر کاظمی کی اس غزل کا شاید ہی کوئی بدل اردو شاعری میں موجود ہو۔
تنہائی کا دکھ گہرا تھا
میں دریا دریا روتا تھا
ایک ہی لہر نہ سنبھلی ورنہ
میں طوفانوں سے کھیلا تھا
تنہائی کا تنہا سایا
دیر سے میرے ساتھ لگا تھا
چھوڑ گئے جب سارے ساتھی
تنہائی نے ساتھ دیا تھا
سوکھ گئی جب سکھ کی ڈالی
تنہائی کا پھول کِھلا تھا
تنہائی میں یادِ خدا تھی
تنہائی میں خوفِ خدا تھا
تنہائی محرابِ عبادت
تنہائی منبر کا دیا تھا
تنہائی مرا پائے شکستہ
تنہائی مرا دستِ دعا تھا
وہ جنت مرے دل میں چھپی تھی
میں جسے باہر ڈھونڈ رہا تھا
تنہائی مرے دل کی جنت
میں تنہا ہوں، میں تنہا تھا
(محمد بلال اعظم)
No Response to "تنہائی"
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔