اے شاعرِ مشرق


بہت دکھ اور کرب کے ساتھ اجمل نذیر کی یہ نظم آپ سب کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں کہ شاعرِ مشرق کے افکار کے ساتھ ہم نے کیا حال کیا۔ مگر ساتھ ہی یہ عزم بھی ہے کہ ہم آئندہ کسی بھی لکھنے والے کو اس طرح کی کوئی بھی تحریر لکھنے کا موقع نہیں دیں گے۔ٍ


اے شاعرِ مشرق

اے شاعرِ مشرق ترے افکار و تخیل
بہتے ہوئے دھارے تھے کسی موجِ رواں کے
تا دیر اثر خیزی کا ساماں بھی وہی تھے
جو تیر تھے کچھ فہم و فراست کی کماں کے

ڈھونڈے نہ کبھی حرف و صداقت کے معنی
اپنائے ہیں غیروں کے سے انداز نہ سمجھے
تقلید کے دھوکے میں مٹا ڈالی ہے تہذیب
ملت کے تقاضوں کے حسیں راز نہ سمجھے

ہم منزلِ مقصود پہ پہنچے نہ لگن سے
نعروں سے لیا کام ہنر تک نہیں پہنچے
تکمیلِ تمنا کے لئے شوق بڑا تھا
پر قوتِ بازو کے اثر تک نہیں پہنچے

مجرم ہیں گہر ہم نے گراں مایہ بہ حکمت
بے نام مسافت کے جھمیلوں میں گنوائے
برسوں سے روش اپنی غلامانہ رہی ہے
ایسے میں بھلا اپنی خودی کون جگائے

اے شاعرِ مشرق ترے احساس کی دولت
اے کاش کہ سینوں میں اتر جائے ہمارے
مایوسی کا عالم ہو کبھی ختم خدارا
امیدوں کی کشتی بھی لگے آ کے کنارے

ہو اپنا یقیں تیری تمنا کے مطابق
پھر کون بھلا غیر سے مانگے گا سہارے
یک جہتی سے منزل کی طرف ایسے رواں ہوں
گردوں سے خدا اپنے ملائک بھی اتارے
(اجمل نذیر)

No Response to "اے شاعرِ مشرق"

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


شئیر کیجیے

Ads 468x60px