غزل
تتلیوں کے موسم میں نوچنا گلابوں کا، رِیت اِس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے
دیکھ کر پرندوں کو باندھنا نشانوں کا، رِیت اِس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے
شہر کے یہ باشندے نفرتوں کو بو کر بھی انتظار کرتے ہیں فصل ہو محبت کی
بھول کر حقیقت کو ڈھونڈنا سرابوں کا، رِیت اِس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے
تم ابھی نئے ہو نہ اِس لئے پریشان ہو، آسمان کی جانب اس طرح مت دیکھو
آفتیں جب آنی ہوں ٹوٹنا ستاروں کا، رِیت اِس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے
اجنبی فضاﺅں میں اجنبی مسافر سے اپنے ہر تعلق کو سمجھ لینا
اور جب بچھڑ جانا مانگنا دعاﺅں کا، رِیت اِس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے
خامشی مرا شیوہ، گفتگو ہنر اس کا، میری بے گناہی کو لوگ کیسے مانیں گے
بات بات پہ جبکہ مانگنا حوالوں کا، رِیت اِس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے
(مرغوب حسین طاہر)
No Response to "تتلیوں کے موسم میں نوچنا گلابوں کا، رِیت اِس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے"
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔