فنکاروں کے نام
تم نے دھرتی کے ماتھے پہ افشاں چُنی
خود اندھیری فضاﺅں میں پلتے رہے
تم نے دنیا کے خوابوں کی جنت بُنی
خود فلاکت کے دوزخ میں جلتے رہے
تم نے انسان کے دل کی دھڑکن سُنی
اور خود عمر بھر خوں اُگلتے رہے
جنگ کی آگ دنیا میں جب بھی جلی
امن کی لوریاں تم سناتے رہے
جب بھی تخریب کی تُند آندھی چلی
روشنی کے نشاں تم دکھاتے رہے
تم سے انساں کی تہذیب پھولی پھلی
تم مگر ظلم کے تیر کھاتے رہے
تم نے شہکار خونِ جگر سے سجائے
اور اس کے عوض ہاتھ کٹوا دیئے
تم نے دنیا کو امرت کے چشمے دکھائے
اور خود زہرِ قاتل کے پیالے پیے
تم مرے تو زمانے کے ہاتھوں سے وائے
تم جیے تو زمانے کی خاطر جیے
تم پیمبر نہ تھے عرش کے مدعی
تم نے دنیا سے دنیا کی باتیں کہیں
تم نے ذروں کو تاروں کی تنویر دی
تم سے گو اپنی آنکھیں بھی چھینی گئیں
تم نے دُکھتے دلوں کی مسیحائی کی
اور زمانے سے تم کو صلیبیں ملیں
کاخ و دربار سے کوچہءدار تک
کل جو تھے آج بھی ہیں وہی سلسلے
جیتے جی تو نہ پائی چمن کی مہک
موت کے بعد پھولوں کے مرقد ملے
اے مسیحاﺅ! یہ خود کشی کب تلک
ہیں زمیں سے فلک تک بڑے فاصلے
(احمد فراز)
(دردِآشوب)
No Response to "فنکاروں کے نام"
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔