رات کے ساتھ ہی رخصت ہوا مہتاب اپنا



غزل
رات کے ساتھ ہی رخصت ہوا مہتاب اپنا
اب کسے ڈھونڈتا ہے دیدئہ بے خواب اپنا


ہم وہ دریا ، کہ تجھے پار لگانے کے لئے
توڑ بیٹھے ہیں بھپرتا ہوا گرداب اپنا


تہ بہ تہ تیرگیوں سے جو نمٹنا چاہا
جل گیا آگ میں اپنی، دل شبِ تاب اپنا


ہائے یہ حُسنِ نظر، وائے یہ رعنائیِ فن
ہم تو بھوکے ہیں، مگر کھیت ہے شاداب اپنا


عمر بھر ہم نے بہایا اگر آنکھوں سے لہو
مطمئن ہیں کہ وطن تو ہوا سیراب اپنا


ایک دنیا نے یہاں پیاس بجھائی ندیم
اِس سخاوت میں سمندر ہوا پایاب اپنا
(احمد ندیم قاسمی)
(دوام)
(جون1978ء)



No Response to "رات کے ساتھ ہی رخصت ہوا مہتاب اپنا"

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


شئیر کیجیے

Ads 468x60px