غزل
فریاد کروں مگر کہاں تک
جب ساتھ نہ دے سکے زباں تک
آنسو تو میں پی رہا ہوں، لیکن
ممنوع کرو نہ ہچکیاں تک
گونجا وہ سکوت پَو پھٹے کا
مجھ کو نہ سنائی دی اذا ں تک
انسان، خدا کی جستجو میں
بھٹکا ہے زمیں سے آسماں تک
پھیلا دیا ایک دامِ ابہام
پھولوں نے قفس سے آشیاں تک
اِک اور محلک، پسِ فلک تھا
پہنچی ہے مری نظر جہاں تک
یہ ضبط نہیں ہے، خود کشی ہے
جب دل سے نہ اٹھ سکے دھواں تک
اندہ ہیں ہنر، ہنروروں کے
قبروں کے تو مٹ گئے نشاں تک
(احمد ندیم قاسمی)
(دوام)
(مئی1978ء)
No Response to "فریاد کروں مگر کہاں تک"
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔