چراغِ مُردہ کو اِک بار اور اُکساؤں


غزل

چراغِ مردہ کو اک بار اور اکساؤں
دیا بجھا تو سحر کا فریب کیوں کھاؤں

خدا کے کام جو آئے، خدا بنائے گئے
مَیں سوچتا ہوں کہ انسان ہی کے کام آؤں

مَیں رنگ و نغمہ و رقصِ حیات ہوں یعنی
ضمیرِ دہر ہوں، شاہوں کے ہاتھ کیا آؤں

رچی ہوئی ہے رفاقت میرے رگ و پے میں
کچھ اس طرح کہ اکیلا چلوں تو گھبراؤں

ستارے ٹوٹ کے کلیوں کے روپ میں چٹکیں
ذرا زمیں کے پندار کو جو اکساؤں

کِسی کی زلف بھی منّت پذیرِ شانہ سہی
مگر مَیں گیسوئے گیتی تو پہلے سلجھاؤں

کئی برس سے مجھے مل رہا ہے درسِ خودی
یہی کہ تیرگیوں میں ہوَا سے ٹکراؤں

مَیں اب سے دُور فرشتوں کے گیت لکھتا رہا
یہ آرزو ہے کہ اب آدمی کو اپناؤں
(احمد ندیم قاسمی)

No Response to "چراغِ مُردہ کو اِک بار اور اُکساؤں"

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


شئیر کیجیے

Ads 468x60px