درد کو جب دلِ شاعر میں زوال آتا ہے


غزل
درد کو جب دلِ شاعر میں زوال آتا ہے
جو بھی شعر آتا ہے، پتھر کی مثال آتا ہے


تیری آنکھوں میں کسی یاد کی لَو چمکی ہے
چاند نکلے تو سمندر پہ جمال آتا ہے


اک نظر تُو نے جو دیکھا تو صدی بیت گئی
مجھ کو بس اتنا حسابِ مہ و سال آتا ہے


بجلیاں جیسے چمکتے ہی کہیں کھو جائیں
اب کچھ اس طرح خیالِ خد و خیال آتا ہے


اپنے ہی حُسن سے ہیں لرزہ براندام طیور
جو بھی آتا ہے، اٹھائے ہوئے جال آتا ہے


آندھیاں میرے چراغوں کے تعاقب میں چلیں
یوں بھی بے وجہ عناصرکو جلال آتا ہے


جب بھی تصویرِ بہاراں میں بھروں رنگ ندیم
شاخ سے ٹوٹے پتوں کاخیال آتا ہے
(احمد ندیم قاسمی)
(دوام)
(اپریل 1978ء)

No Response to "درد کو جب دلِ شاعر میں زوال آتا ہے"

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


شئیر کیجیے

Ads 468x60px