قرضِ نگاہِ یار ادا کر چکے ہم


غزل

قرضِ نگاہِ یار ادا کر چکے ہم
سب کچھ نثارِ راہِ وفا کر چکے ہم

کچھ امتحانِ دستِ جفا کر چکے ہم
کچھ اُن کی دسترس کا پتا کر چکے ہم

اب احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں رہی
قاتل سے رسم و راہ سوا کر چکے ہم

دیکھیں ہے کون کون، ضرورت نہیں رہی
کوئے ستم میں سب کو خفا کر چکے ہم

اب اپنا اختیار ہے چاہیں جہاں چلیں
رہبر سے اپنی راہ جدا کر چکے ہم

ان کی نظر میں، کیا کریں، پھیکا ہے اب بھی رنگ
جتنا لہو تھا صرفِ قبا کر چکے ہم

کچھ اپنے دل کی خُو کا بھی شکرانہ چاہیے
سو بار اُن کی خُو کا گلا کر چکے ہم
(فیض احمد فیض)
(دستِ صبا)

No Response to "قرضِ نگاہِ یار ادا کر چکے ہم"

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


شئیر کیجیے

Ads 468x60px