علامہ اقبال کا تصور پاکستان اور سیکولر



علامہ اقبال کا تصور پاکستان اور سیکولر

اس عنوان پر صحیح الفکر احباب شاید چیں بچیں ہوں کہ کہاں مصورِ پاکستان اور ان کا عہد آفریں تصورِ پاکستان اور کہاں سیکولرزم جیسا ایک ناکام طرزِفکر۔ تو بات بالکل بجا ہی، اور یہی درحقیقت اس مضمون کا محرک بھی ہے۔ علامہ اقبا ل کا تصورِ پاکستان اگر چند لفظوں میں بیان کرنا ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ اسلامیانِ برصغیر کی ایک ایسی جداگانہ ریاست کا قیام چاہتے تھے جو ریاست ِ مدینہ کا نقشِ ثانی ہو اور جس کی بنیادیں اسلامی فکر کی ہمہ گیریت اور جغرافیائی ماورائیت پر استوار ہوں۔ ایک اہم تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ علامہ مرحوم اس جادئہ عزیمت کے تنہا راہ رو یا راہبر نہ تھے بلکہ آپ سے پہلے کئی جلیل القدر ہستیوں نے اس فکر کی آبیاری کی تھی۔ ان میں سرفہرست احیائے اسلامی کے علم بردار حضرت مجدد الف ِثانی رحمةاللہ ہیں، اور پھر تحریک مجاہدین کے عظیم قائدین اور پھر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہم اللہ۔ سیکولرزم کا نظریہ تو خود انیسویں صدی کی پیداوار ہے جسے جواں مرگ اشتراکیت اور سوشلزم کے زوال کے بعد وطنِ عزیز کا وہ دین بیزار گروہ جس کا قبلہ کبھی ماسکو تھا توآج وہ واشنگٹن کی سرمایہ دارانہ سامراجی فکر کا پرچار ہے، اور جسے معروف اہل قلم اور شاعر اور اسلام آباد کے موقرادبی سہ ماہی الاقرباءکے صدر مجلس ادارت سید منصورعاقل کے بقول ”لادین فکری مافیا“ کہا جاسکتا ہی، وہی اب نظریہ پاکستان کی سیکولرزم کے حوالے سے تعبیر و توضیح پر کمربستہ نظر آتا ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ سال وفاقی دارالحکومت کی دو معروف اور معتبر جامعات علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں مصورِ پاکستان کے فرزندِ ارجمند محترم ریٹائرڈ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کے خصوصی خطاب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بظاہر ان تقاریب کا موضوع نظریہ پاکستان کی تشریح وتوضیح تھا مگر مہمان مقرر نے جو گفتگو وہاں کی وہ حقیقتاً نظریہ پاکستان کی نفی تھی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کے افکار عالیہ پرمشتمل ایک کتابچہ جو حاضرین مجلس میں تقسیم کیاگیا اس کا عنوان تھا: ” اقبال کی نگاہ میں پاکستان کی ’اسلامی ریاست‘ مثالی ’سیکولر‘ ریاست کیسی؟“ دین اور لادینیت کی اس سے زیادہ پ ±رکشش پیوندکاری اورکیا ہوسکتی ہے؟ بقول علامہ رحمہ اللہ، ہمارا المیہ ہی من حیث الفرد و القوم بینائے غلط بین اور دانشمندانِ بے دین رہے ہیں۔ جب سے آج تک ہمارا سانحہ یہی ہے کہ ہم علم اور عمل دونوں میدانوں میں ادھورے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ بسا اوقات ہمارے نامی گرامی دانشور اور اہلِ قلم حتیٰ کہ سکہ بند علماءبھی وہ کچھ کہہ دیتے ہیں اور کردیتے ہیں جسے وہ بزعمِ خود مبنی برحق سمجھتے ہیں۔ حالانکہ وہاں تمام تر اُن کی بے سوادی اورکم نگاہی کا عمل دخل ہوتا ہے۔ پھر ہماری مادیت زدہ دنیا میں شہرت و ناموری اور ذاتی یا گروہی منفعت کی قربان گاہ پر تو بڑے بڑے اہلِ تقویٰ ٰ قربان ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ زیرِنظر مضمون میں اُس مقالہ کے مندرجات پر تبصرہ ہرگز مطلوب نہیں کہ وہ قابلِ تبصرہ ہے بھی نہیں۔ فکرِ اقبال میں تحریف ایک پرانی روایت ہی، جسے پہلے بھی نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ ذیل میں جس حقیقت کی نشان دہی مطلوب ہے وہ ہے سیکولرزم اور نظریہ پاکستان کی جداگانہ حقیقت۔ اقبال نے ابلیس کی چالوں کو اپنے زندہ جاوید اشعار میں بڑی خوبصورتی سے بے نقاب کیا ہے۔ انہی چالوں کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہو تو آج ہر طرف ہمارے یہاں دیکھا جاسکتا ہے۔ ابلیس لعین نے لاہور شہر کی بڑی بڑی کوٹھیوں کو چھوڑ کر اپنی جولاں گاہ کے لیے ایک مخصوص حویلی کا انتخاب کیا۔ آخر اس کی کوئی وجہ تو تھی۔ پتنگ بازی، رامش و رنگ اور ناو نوش کی محفلیں کسی بھی کوٹھے پر سجائی جاسکتی تھیں، لیکن اقبال سے نسبت کے بھی تو کچھ تقاضے ہیں، جی ہاں وہی اقبال جس نے اس کے مکر و فریب کو بے نقاب کیا تھا۔ شب خوں مارنا آخر کسے کہتے ہیں۔ شیطان کی ذرّیات کا یہ کارنامہ بھی کیا خوب ہے کہ جس جعلی تصوف کے تار و پود اقبال نے بکھیرکر رکھ دیے تھے نبیرہ اقبال ایک بڑے چودھری کے تعاون اور آمرِ وقت کی زیرِ سرپرستی اسی کا تاج زیب ِ سر کیے بزم آرائے محفل دکھائی دیں۔ جہاں تک فرزندِ شاعرِ اسلام حضرت جسٹس جاوید اقبال کا تعلق ہے تو ابلیس کا دستِ شفقت ان پر نہ ہوگا تو بھلا کس پر ہوگا۔ جاوید اقبال صاحب ایک بہت بڑے باپ کے ایک بڑے بیٹے بھی ہیں۔ جس علم کی بات آغازِ کلام میں کی گئی اس کے حامل بھی، ”زندہ رود “جیسی تصنیف کے مصنف بھی۔ ان کی بڑی خوبی یہ ہے کہ موقع اور حالات کو اسلام اور پاکستان کے لیے سازگار دیکھتے ہیں تو وہ باتیں کرجاتے ہیں کہ جنہیں سن کر خوشی ہوتی ہے کہ جس شخصیت سے جن خیالات کے اظہار کی توقع تھی وہ کسی حد تک تو پوری ہوئی۔ مگر پھر دوسرے مواقع بھی آتے ہیں جہاں انہیں اپنے علم و دانش کا سکہ جمانا ہوتا ہے تو رائج الوقت سکہ اگر سیکولرزم کا ہے خواہ وہ کیسا ہی کھوٹا اور فی الحقیقت بے وقعت ہی کیوں نہ ہو، ان مواقع پر وہ وہی کچھ کرتے ہیں جیسا کہ ”روم جاﺅ تو رومیوں کی طرح کرو“کا اصول ہے۔ علامہ اقبال نے بالِ جبریل میں جو نظم ”جاوید کے نام“ معنون کی ہے اسے پڑھیے تو لگتا ہے مفکرِ اسلام کو اپنے فرزند دلبند کے حوالے سے کچھ یقینی خدشات بھی تھے جن پر انہوں نے بیٹے کو بروقت متنبہ کردیا تھا۔اگر ایسا نہیں تو اُس دانائے راز نے یہ شعر بھلا کیوں کہاتھا
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی 
خراب کر گئی شاہیں بچوں کو صحبتِ زاغ
 عیسائی مغرب سیکولرزم کی یہ تعریف کرتا ہے
"The view or belief that soceity's values and standards should not be influenced by religion or church."
(Chambers 21st Century Dictionary, P.1269)

ان مغربی نظریات میں سے بیشتر اپنی طبعی موت مر چکے ہیں جبکہ چند ایک موت و زیست کی کشمکش میں گرفتار دکھائی دیتے ہیں۔ سیکولرزم کا شمار بھی انہی میں ہے۔ درج بالا تعریف کی رو سے پوری دنیا میں صرف دو معاشر ے ہیں جنہیں بڑی حد تک سیکولر یا بے دین کہا جا سکتا ہے۔
 ایک ہے ہندو معاشرہ اور دوسرا عیسائی مغرب۔ اپنی نہاد میں یہ دونوں ہی معاشرے اُس مذہبی فکر سمیت جس کے وہ حامل ہیں ہمیشہ بے دین ہی رہے ہیں۔ نہ ہندو مت معروف معنوں میں کوئی مذہب ہے اور نہ عیسائیت۔ بنیادی طور پر یہ دونوں دو ثقافتی مظاہر ہیں جنہوں نے اپنی شناخت اور بقاءکے لیے کچھ رسوم و رواج اور مندر اور چرچ جیسے ادارے کھڑے کرلیے ہیں جہاں چند خاص موقعوں پر مذہب کے نام پر کچھ کارروائی عمل میں آ جاتی ہے اور پھر اس کے بعد ہر فرد اپنی اپنی طرزِ فکر و عمل میں آزاد ہوتا ہے تاکہ: آتما بھی خوش رہی، پرماتما بھی شاد ہو رقص گاہیں جگمگائیں، چرچ بھی آباد ہو اسلام میں تو دین و دنیا کی ثَنَویت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، کیوںکہ اسلام تو ایک مکمل نظامِ حیات ہے
آپ کہہ دیں کہ میری نماز، میرے مناسک ِ عبودیت، میرا جینا، میرا مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہی، جس کا کوئی ساجھی نہیں۔ مجھے اسی بات کا حکم ہے اور میں اپنے اللہ ربّ العٰلمین کے حضور سرِتسلیم خَم کرنے میں پہل کرنے والا ہوں۔
(الانعام162-163)
 ایک دوسری حقیقت بھی ہماری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو چونکہ اپنی بندگی کے لئے پیدا کیا ہے اسی لیے اس کی فطرت میں مذہب سے وابستگی کا جذبہ بھی ودیعت کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ َادَھرمی یا لادینیت کے عروج کے ادوار میں بھی ہندو اور عیسائی معاشرے کسی نہ کسی طور مذہب کی طرف لوٹتے نظر آتے ہیں۔ ہندو مہاسبھا، جن سنگھ، بجرنگ دل، شیوسینا،راشٹریہ سویم سیوک سنگھ وغیرہ نام سے کٹر ہندو سیاسی، مذہبی اور نیم عسکری تنظیمات قیام پاکستان کے بعدہی وجود میں آگئی تھیں اور آج آریہ ورت میں ”ہندوتوا“ کا چرچا ہے۔ اسی طرح مغرب مذہبی احیا ءکے مختلف مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ بش دور کے امریکہ میں نیوکونز (neo-cons)اور آج برطانیہ میں مذہب کی جانب مائل Conservatives کی حکومت اس کی ایک مثال ہے۔ نائن الیون کے بعد کا دور اسلامیانِ عالم کے لیے ابتلاءکا دور ہے مگر قدرت کی کرشمہ سازی دیکھئے کہ انہی اسلام اور مسلم دشمن معاشروں میں طالبانِ حق کا بھی ایک گروہ ہے جو اللہ کے دین میں جوق در جوق داخل ہو رہا ہے۔ ماضی کاکالا پانی جزائر انڈمان، اور نکوبار ہو کہ دورِحاضر کا خلیجِ گوانتانامو کا عقوبت خانہ، اسلام کی طرف واپسی کی خبریں تواتر سے آ رہی ہیں۔ پاکستان کی اساس اسلام ہے اور مصورِ پاکستان اوربانی پاکستان کے ذریعے اللہ تبارک و تعالیٰ نے دینی بنیادوں پر استوار جس دو قومی نظریے کی بناءپر اسلامیانِ برصغیر کو یہ مملکت خداداد عطا کی ہے وہاں سیکولرزم کا جادو بھلا کیا چل سکتا ہے! کمال تو یہ ہے کہ مصطفی کمال کا ترکی حقیقی معنوں میں کبھی سیکولر نہیں ہوسکا۔ وہ سرزمین جہاں نماز و اذان کی قرآنی زبان میں ادائیگی پر پابندی تھی، وہیں حق تعالیٰ نے بدیع الزمان سعید نورسی مرحوم و مغفور (مارچ 1878 - 23 مارچ 1960ء) جیسی سعید روحوں کو بیدار کردیا اور انہوں نے وہ کام کردکھایا کہ عربی اب وہاں پاکستان کی بہ نسبت کہیں زیادہ پڑھی، بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے۔ اس کا مشاہدہ کرنا ہو تو ایام حج میں منیٰ و عرفات میں نوجوان ترک فرزندان و دخترانِ اسلام سے گفتگو کرکے دیکھ لیں۔ دُور نہیں جاسکتے تو یہیں اسلام آباد کے معروف تعلیمی نیٹ ورک ”پاک ترک اسکول“کے ترک اساتذہ اور اربابِ حل و عقد سے عربی میں ہمکلام ہونے کی سعادت حاصل کرلیں اور پھر دیکھیے تماشہ مصطفی کمال کی لادینیت کا۔ موجودہ ترکی کے سیاسی محاذ کے مجاہد جناب رجب طیب اردغان سے ایک جانب اسرائیل
 لرزہ براندام ہے تو دوسری جانب روح اتاترک انگشت بدنداں۔ اور یہ جو اپنا بنگلہ دیش ہے اس کے بانیوں نے بھی اسے سیکولر ریاست ہی بنایا تھا مگر کیا کیا جائے غیور مسلمانانِ مشرقی بنگال کا کہ سیکولرزم وہاں آج بھی منہ چھپائے پھرتا ہے، قبولیت ِعام تو بیچارے کو کیا خاک ملتی۔ بنگلہ دیش کی سیاسی قیادت بھارت نواز بھی ہو تو بنگلہ دیشی عوام مغربی بنگال کی تہذیبی اور سیاسی بالادستی کبھی قبول نہیں کرسکتے کہ اگر انہوں نے آخر کار یہی کرنا تھا تو پھر 1905ءمیں تقسیمِ بنگال اور اس سے اگلے برس 1906ءمیں پاکستان مسلم لیگ جیسی جماعت کی داغ بیل وہاں کبھی نہیں ڈالی گئی ہوتی۔ اسی روشن حقیقت کا اظہار 2002ءمیں اُس وقت بھی ہوا تھا جب قاہرہ میں اپنے ہم منصب بنگلہ دیشی سفارت کار سے میں نے کہا تھا اور اس کی آنکھیں نمناک ہوگئی تھیں کہ پاکستان کو آپ خود سے جتنا قریب پاتے ہیں پاکستان بھی بنگلہ دیش کو اپنا دست و بازو ہی سمجھتا ہے۔ صد افسوس کہ محترم جاوید اقبال اور ان جیسے چند دوسرے بزرگ مُردہ سیکولرزم کے تابوت کو اپنا نحیف کندھا پیش کررہے ہیں، حالاںکہ اس تعفن زدہ لاش کو تو اب تک گنگا برد کردینا چاہیے تھا کہ پہنچے وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر ہے۔ آخرِ کلام میں ایک زندہ وتابندہ تاریخی حقیقت کی نشاندہی ضروری ہے۔ قائداعظم علیہ الرحمہ نے پاکستان کے حوالے سے ایک بڑی خوبصورت بات کہی تھی جو مبنی برحق ہے کہ پاکستان اسی وقت وجود میں آگیا تھا جب پہلے مسلمان نے اس سرزمین پر اپنے قدم رکھے تھے۔ یہ تاریخ ساز لمحہ 10رمضان المبارک 712 میلادی میں پیش آیا تھا جب محمد بن قاسم کے ہاتھوں سندھ فتح ہوا اور یہاں پہلی مسلم ریاست ابھری جس نے اس خطہ زمین کو”باب الاسلام“بنادیا۔ اس واقعہ کے 1235برس بعد 1947ءمیں بالآخر مملکت ِخداداد پاکستان وجود میں آئی۔ ہجری مہینہ اُس وقت بھی رمضان المبارک ہی کا تھا اور ایسی برکتوں والی رات جسے ہزار مہینوں سے بہتر کہا گیا ہے، یعنی 27 ویں شبِ ماہ صیام۔کیا یہ محض اتفاقی واقعات ہیں؟ نہیں، بخدا ہرگز نہیں کہ تکوینی امور اتفاقی نہیں بلکہ حتمی اور طے شدہ (pre-detestined) ہوتے ہیں۔ کوئی صاحب ِفہم و ادراک بھلا یہ کیسے تسلیم کرسکتا ہے کہ قدرت نے جس ریاست کی اس طرح آبیاری کی ہو وہ کبھی لادین، دین بیزار اور سیکولر بھی ہوسکتی ہے۔ علامہ مرحوم و مغفور کے کلامِ نظم و نثر سے سیکولر پاکستان کے لیے شواہد مہیا کرنا ایسا ہی ہے جیسے قرآن عظیم الشان سے مارکسزم اور سوشلزم کے حق میں دور کی کوڑی لانا- علامہ کا
The Reconstruction of Religious Thought in Islam
ہو، یا کلیاتِ فارسی و اردو، یا پھر تاریخی خطبہ الہ آباد، ان کی فکر تمام تر قرآن و حدیث کے نور سے ہی منور ہے۔ اس ضمن میں صرف درجِ ذیل اقتباس ہی کافی ہوگا جو علامہ کے تاریخی خطبہ الہ آباد (29 دسمبر 1930ء) سے ماخوذ ہے
اسلام فرد کی زندگی کو دین اور دنیا کے الگ الگ خانوں میں نہیں بانٹتا۔ وہ مادے اور روح کی کسی ناقابلِ اتحاد ثنویت کا قائل نہیں ہے۔ اسلام کی رو سے خدا اور کائنات، روح اور مادہ، کلیسا اور ریاست ایک ہی کُل کے جزو ہیں، اور ایک دوسرے سے پیوست ہیں۔ اسلام یہ نہیں سکھلاتا کہ انسان آلائشوں سے لبریز اور ناپاک اس دنیا کا کوئی باشندہ ہی، جسے وہ کسی دوسری دنیا کی خاطر ترک کردے جہاں روح رہتی ہی، اسلام کے نزدیک مادّہ روح کا وہ روپ ہے جو قیدِ مکان و زمان میں گھرا ہوا ہے۔ یورپ کی عیسائی ریاستوں کی زندگی سے مذہب عیسوی تقریباً خارج ہوگیا ہے۔ میری خواہش ہے (اور مجھے یقین ہے کہ) شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک منظم اسلامی ریاست
 قائم کرنا پڑے گی۔
 میں اپنی معروضات اب فرموداتِ قائداعظم علیہ الرحمہ کے دو مختصر اقتباسات پر ختم کروںگا جو اس حقیقت کی گواہ ہیں کہ جس پاکستان کے لیے بانی پاکستان نے ایک طویل اور جاں گسل تحریک کی قیادت کی اس کے خدوخال خود ان کے نزدیک کیا تھی
اسلام محض رسوم، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ نہیں ہے۔ اسلام ہر مسلمان کے لیے ضابطہ حیات بھی ہے جس کے مطابق وہ اپنی روزمرہ زندگی، اپنے افعال و اعمال، حتیٰ کہ سیاست اور معاشیات اور دوسرے شعبوں میں بھی عمل پیرا ہوتا ہے۔
(کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب، 25 جنوری 1948ء)

(بشکریہ: شکیل احمد چوہان)

No Response to "علامہ اقبال کا تصور پاکستان اور سیکولر"

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


شئیر کیجیے

Ads 468x60px