غزل
اب دو عالم سے صدائے ساز آتی ہے مجھے
دل کی آہٹ سے تری آواز آتی ہے مجھے
جھاڑ کر گردِ غمِ ہستی کو اڑ جاو ں گا میں
بے خبر! ایسی بھی اک پرواز آتی ہے مجھے
یا سماعت کا بھرم ہے یا کسی نغمے کی گونج
ایک پہچانی ہوئی آواز آتی ہے مجھے
اس کی نازک انگلیوں کو دیکھ کر اکثر عدم
ایک ہلکی سی صدائے ساز آتی ہے مجھے
(عبدالحمید عدم)
1 Response to "اب دو عالم سے صدائے ساز آتی ہے مجھے"
کس نے کھولا ہے ہوا میں گیسوؤں کو ناز سے
نرم رو برسات کی آواز آتی ہے مجھے
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔