جُز ترے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے


غزل

جُز ترے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے
تُو کہاں ہے مگر دوست پرانے میرے

تُو بھی خوشبو ہے مگر میرا تجسس بے کار
برگِ آوارہ کی مانند ٹھکانے میرے

شمع کی لَو تھی کہ وہ تُو تھا مگر ہجر کی رات
دیر تک روتا رہا کوئی سرہانے میرے

خلق کی بے خبری ہے کہ مری رسوائی
لوگ مجھ کو ہی سناتے ہیں فسانے میرے

لُٹ کے بھی خوش ہوں کہ اشکوں سے بھرا ہے دامن
دیکھ غارت گرِ دل یہ بھی خزانے میرے

آج اک اور برس بیت گیا اس کے بغیر
جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے

----ق----

کاش تُو بھی مری آواز کہیں سُنتا ہو
پھر پکارا ہے تجھے دل کی صدا نے میرے


کاش تو بھی کبھی آ جائے مسیحائی کو
لوگ آتے ہیں بہت دل کو دُکھانے میرے

کاش اوروں کی طرح میں بھی کبھی کہہ سکتا
بات سُن لی ہے مری، آج خدا نے میرے

تُو ہے کس حال میں اے زود فراموش مرے
مجھ کو تو چھین لیا عہدِ وفا نے میرے

چارہ گر یوں تو بہت ہیں مگر اے جانِ فراز
جز ترے اور کوئی زخم نہ جانے میرے
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)


No Response to "جُز ترے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے"

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


شئیر کیجیے

Ads 468x60px