آخری خط
وہ وقت مری جان بہت دُور نہیں ہے
جب درد سے رک جائیں گی سب زیست کی راہیں
اور حد سے گزر جائے گا اندوہِ نہانی
تھک جائیں گی ترسی ہوئی ناکام نگاہیں
چھن جائیں گے مجھ سے مرے آنسو مری آہیں
چھن جائے گی مجھ سے مری بے کار جوانی
شاید مری الفت کو بہت یاد کرو گی
اپنے دلِ معصوم کو ناشاد کرو گی
آﺅ گی مری گور پہ تم اشک بہانے
نوخیز بہاروں کے حسیں پھول چڑھانے
شاید مری تربت کو بھی ٹھکرا کے چلو گی
شاید مری بے سود وفاﺅں پہ ہنسو گی
اس وضعِ کرم کا بھی تمہیں پاس نہ ہو گا
لیکن دلِ ناکام کو احساس نہ ہو گا
القصّہ مآلِ غمِ الفت پہ ہنسو تم
یا اشک بہاتی رہو، فریاد کرو تم
ماضی پہ ندامت ہو تمہیں یا کہ مسرت
خاموش پڑا سوئے گا واماندئہ الفت
(فیض احمد فیض)
(نقشِ فریادی)
5 Response to "آخری خط"
بہت عمدہ
پسندیدگی کا شکریہ علی جی۔
بہت خوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پسندیدگی کا شکریہ
خوب بہت خوب
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔